کالم و مضامین

یو می اور ہم ویلکم طالبان

بدکار ریاست اور انقلاب

جمہوری نظام اور اٹھارویںترمیم

پاکستانی عوام، مجبور یا بے حس

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟

پاکستانی عوام، مجبور یا بے حس

زندہ باد چانکیہ ،پائندہ باد میکاولی

جمہوریت اور خلافت

موجودہ نظام اور سلگتے مسائل

سوفسطائیت اور پاکستانی مسائل

 

انقلاب کی ضرورت

پاکستانی مسائل کی جڑ ۔ جمہوریت

چانکیائی سیاست کا علمبردار امریکا

دو قومی نظریہ اور انقلاب

پاکستانی سیاستدانوں کے ہاتھوں عوام کا استحصال

لارنس آف عربیہ اور پاکستانی سیاستدان

مہنگائی، بے روزگاری اور مشرف کا احتساب

نظریہ مطابقت اور پاکستانی سیاست

 

 

 

در توبہ کھلتا نہیں

ڈاکٹر منیب احمد ساحل

اب دعاؤں سے بھی نہیں کھلتا کوئی دروسعت افلاک میں

منتیں سب لوٹ آتی ہیں در ایجاب سے

منتیں،آہیں،مرادیں،زاریاںاب سنی نہیں جاتیں

نسبتوں کو واسطوں کو اور وسیلوں کوپذیرائی نہیں ملتی سرعرش بریں

آندھیوں کے شور میں دبکے بیٹھے ہوئے ہیں سب

زلزلوں کا شور ہے

بستیاں ایسی

در کوثر سے دھتکارے ہوئے معلون بستے ہو جہاں

حکمران قہر مسلسل

کی طرح جن پر سزا کی صورت مسلط ہو چکے

کیا خطا ایسی ہوئی

قم باذن اللہ کہنے والے لب خاموش ہیں

آستیں میں ید بیضا کے وارث گنگ ہیں

مستحب ہاتھوں کی فریاد کی دستک سے در توبہ کھلتا نہیں
فقیہان وطن کو معلوم ہی نہیں کہ غربت نے آرزو کو مفلسی کی تاریک قبر میں اتار دیا ہے ،دراصل ہمارے رہنما چاند گاڑی کی خواہش رکھتے تھے چاند گاڑی نہ ملی تو بیل گاڑی میں بیٹھ گئے اور اپنی ہی سمت آگے بڑھنے لگے اور یوں وہ دائروں میں چلنے کے عادی ہو گئے ،یہ فقیہان شہر قوم کو ان کے مسائل سے نجات دلانا چاہتے ہیں ،ان میں سے کوئی روٹی کپڑہ اور مکان کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی آزاد عدلیہ کا،کوئی صوبائی خود مختاری مانگ رہا ہے تو کوئی اشتراکیت کا پرچارکررہا ہے۔
نام نہ لے یہاں علم رخودی و سپاہ گیری کاموزوں ہی نہیں مکتب کیلئے ایسے مقالاتکھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیلاب شاید نہ پڑے کسی کعبے کی بنیادخدا ہمیں ہر قسم کی قلت ،علت اور ذلت سے محفوظ رکھے کیونکہ ہم نے غور ،فکر و تدبر کا راستہ ترک کر دیا ہے ،22عرب ممالک سمیت 57اسلامی ممالک پر مشتمل امت مسلمہ کے2ارب سے زائد خاک نشین زبوں حالی کا شکار ہیں،آج امت مسلمہ کے نوجوانوں کو نہیں پتہ کہ ان کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟تمام مسلمان ممالک کے باشندے صرف کمانے کھانے شادی کرنے کی سوچ سے باہر ہی نہیں آ رہے ،ہم اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر تو کرتے ہیں لیکن آج کوئی محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جنم نہیں لے سکتا کیونکہ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم امہ کے رہنما عیش کوشی ،مصلحت پرستی کا شکار ہیں اور وہ مسلم امہ کے مسائل سے نہ صرف صرف نظر کررہے ہیں بلکہ انہیں اغیار کی سازشوں کا اندازہ ہی نہیں،یہ بات قابل افسوس ہے کہ دو ارب کی آبادی رکھنے والی مسلم امہ کے پاس کوئی ’’تھنک ٹینک‘‘ موجود نہیں جو کہ انہیں اغیار کی سازشوں سے آگا ہ کرے اسی لئے ایک لارنس آف عربیہ کھڑا ہوتا ہے اور وہ سلطنت عثمانیہ کے 22ٹکڑے کر دیتا ہے ،اور مسلم امہ کے فقیہان اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے،آج دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی،اخلاقی پستی کا سبب یہ ہے کہ مسلم امہ گروہی ،لسانی و نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے ،آج مسلم امہ میں کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت ایسی نہیں جو کہ ملت اسلامیہ کے مردہ جسد پر ضرب کلیمی لگانے کی صلاحیت رکھتی ہو،اور اسکی واحد وجہ امت مسلمہ کے زوال پر غور نہ کرنا ہے ،دنیا بھرمیں مسلم عسکری تنظیمیں اسلام کو بدنام کر رہی ہیں اور ان کے اس رویے کی وجہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہر مسلمان دہشتگرد نہیں لیکن ہر دہشتگرد مسلمان ہے ،اغیار ہمیں یہ طعنے صرف اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے مسلمان ان کے مقابلے میں کچھ نہیں کر سکتایہودیوں نے 250سال پہلے اپنے زوال پر غور کیا اور اس کے بعد ورلڈ جیوش آرگنائزیشن بنائی جس میں انہوں نے تھنک ٹینک بنایا ،باقاعدہ آپریشنل اور کاؤنٹر ونگ بنایا ،انہوں نے مسلمانوں پر ثقافتی،سماجی ،اور سیاسی یلغار کی اور مسلم امہ ان کی ریشہ دوانیوں کے جال میں آ کر تباہ و برباد ہو گئی ،یہ آج یہودیوں کی سازشوں کا ثمر ہی ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت چھوڑ کر مغرب کی نقالی کر رہے ہیں ،آج ہمارے بچوں کو انبیاء کے اتنے نام یاد نہیں ہونگے جتنے بالی وڈ ،ہالی وڈ کی اداکاراؤں کے ہونگے۔ آج بھی ہمارے مزدورں کے ہاتھ سرمایہ داروں کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں،ہمارے فکر و خیال آزاد نہیں،آج مسلمانوں کے بچے کھلونوں سے نہیں کھیلتے بلکہ تقدیر ان سے کھیلتی ہے یا پھر وہ اغیار کی سازشوں کا نشانہ بن جاتے ہیں،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ کے نوجوان اغیار کی سازشوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں اور وہ انفرادی طور پر ہی ان کیخلاف جہاد کریں ،ضروری نہیں کہ جہاد بندوق اٹھا کر ہی ہو ،یہودیوں کے ہتھکنڈوں کو ان ہی پر پلٹا جا سکتا ہے ،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صرف کاغذوں(ڈالروں) کے عوض مسلم امہ کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے ۔جہاد کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے نصاری یہود و ہنود کو سیاسی محاذ پر شکست دی جائے ،اور یہ ہر باشعور نوجوان کر سکتا ہے ،مثال کے طور پر یورپی یونین کی کرنسی ’’یورو‘‘ہے اور امریکہ کی ڈالر ،یورو کو ڈالر کے مقابلے پر لانے کیلئے ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی درآمدات،برآمدات ،جی ڈی پی معلوم کرنا ہے ،یورپی یونین چونکہ ممالک کا مجموعہ ہے اس لئے دنیا کے تمام ممالک کی برآمدات یورپی ممالک کو امریکا سے زیادہ ہیں،نوجوان حساب لگائیں کہ دنیا کے کون سے ملک کو ڈالر کے بجائے یورو میں تجارت کرنے کا فائدہ ہو گا اورانممالک کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی تجارت کو ڈالر سے یورو میں تبدیل کر دیں جس سے انہیں ہی فائدہ ہو گا یہ ترغیبات تمام ممالک کے سفارتخانوں،سرکاری دفاتر کو بذرعہ ای میل روانہ کر دیں ،اگر دنیا کے کچھ ممالک نے ہی اپنی کرنسی کو ڈالر سے یورو میں تبدیل کر لیا تو امریکا کے زوال کا وقت شروع ہو جائے گا۔(یہ ایک مثال ہے کہ مسلم امہ کے نوجوان اس طرح کے کام کر سکتے ہیں)یاد رکھیے ہمیں اغیار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اڑانے کی ضرورت نہیں ،ہمیں کہیں خود کش حملہ کرنے کی ضرورت نہیں آج ایک عام آدمی انٹر نیٹ کو ہتھیار بنا کر ثقافتی یلغار کر سکتا ہے ،مسلم نوجوان فارغ ہو کر دوسروں کو پڑھائیں انہیں دین سے دوری کے بارے میں بتائیں ،نصاری یہود و ہنود کی سازشوں پر غور کریں اور اس کیخلاف لائحہ عمل طے کریں یاد رکھیے ایک نوجوان یہ سب اکیلا بھی کر سکتا ہے ،معاشرہ سدھارنے اور مسلم امہ کے مسائل حل کرنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں ازخود صیح ہونا پڑے گا کیونکہ معاشرہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے جب افراد اخلاقی گراوٹ کاشکار ہو جاتے ہیں تو معاشرہ خراب ہو جاتا ہے ،ہمیں ازخود قانون پر عمل کرنا ہو گا،جب بحیثیت فرد ہم صیح ہو جائیں گے تو معاشرہ خود ہی صیح ہو جائے گا۔ہمیں آگے بڑھنے کیلئے صرف علم و عمل کے میدان میں آگے جانے کی ضرورت ہے،آج کا انسان بے انتہا مسائل میں پھنسا ہوا ہے اگر روزانہ ہم صرف دو گھنٹے بھی امت مسلمہ کے مفاد کیلئے نکالیں تو انشااللہ وہ وقت ضرور آئے گا جب ہم آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہوں گے ،جدو جہد کریں’’ہمارے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں سوائے زنجیروں اور فتح کرنے کیلئے پوری دنیا ہے‘‘۔
خواہ کچھ بھی ہو آگے قدم بڑھانا ہے

مجھےنیند کیا آئے میلوں دور جانا ہے مجھے

 

جمہوریت، سیاستدان ، عدلیہ اور احتساب

ڈاکٹر منیب احمد ساحل

ہر شخص چاہے وہ عملی سرگرمی ،سیاسی جدوجہد سے یا کسی بھی قسم کی تحاریک سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو اسے یہ فکر ستاتی رہتی ہے کہ مستقبل قریب میں ملک کے سیاسی حالات کا کیا ہو گا ؟ کاروبار زندگی پر اس کا کیا اثر پڑے گا ؟ مہنگائی کا کیا عالم ہو گا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب کوئی بھی نہیں دے سکتا ۔انسان کے چاروں طرف پھیلی ہوئی دنیا بہت بڑی ہے انسان بس یہ کر سکتا ہے کہ رفتہ رفتہ ماضی اور حال کا تجزیہ کر کے قدم بہ قدم مستقبل کی پہیلی کو بوجھے ۔روز مرہ کی زندگی کے عام سوالوں پر غور و فکر کرنے کیلئے دنیا کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ہونا ضروری ہے جس سے غور و فکر کیلئے غذا ملتی ہے ۔ہزاروں سال تک انسانیت کے حافظے میں سورج گرہن، دریائوں میں سیلاب آنے کے اسباب و دیگر قدرتی واقعات کے بارے میں الھ الگ مشاہدے جمع ہوتے رہے زندگی کے جنم لینے اور فی الحقیقت اس کے ناپید ہونے کے قیاسات پیدا ہوتے رہے ،ہزاروں سال قبل کا انسان ہر چیز کو مادی طور پر لیتا تھا جیسے خیالی اشیاء بھی ٹھوس وجود رکھتی ہوں مثلا قدیم یونانی دیو مالا میں پنڈوارا کے صندوق والے قصے میں بدی کو یوں پیش کیا گیا ہے جیسے وہ ٹھوس چیز ہو ”ایپی میتئیس کے گھر میں وہ صندوق رکھا تھا جس میں بدہ سنبھال کر رکھی گئی تھی اس کی متجسس بیوی پنڈوارا نے صندوق کا ڈھکنا کھول دیا اور بدی ہر طرف کو اڑ گئی”۔ اپنے ارتقاء کے مخصوص مرحلوں میں تمام قومیں اسی خصوصیت کی حامل رہی ہیں کہ انسان نے ہر نظر نہ آنیوالی چیز کو تمثیل کے ذریعے قبل کر لیا ،چناچہ ایک افریقی قوم اشانتی میں ہمیں دانش کا ایسا ہی مادی تصور ملتا ہے کہ ”مکڑا انسانسی ساری دنیا میں مارا مارا پھرتا رہا اور دانش کے ذرے چن چن کر ایک برتن میں جمع کرتا رہا جب اس نے دانش سے برتن پھر لیا تو اسے ایک پیڑ کے تنے میں چھپانا چاہا مگر اسے اپنے بیٹے پر غصہ آگیا اور اس نے وہ برتن زمین پر پھینک دیا ۔برتن گرا،اور ٹوٹ گیا اور دانش کے ذرے زمین پر بکھر گئے سارے لوگ دوڑ کر دانش کے ذروں کو چننے لگے جن لوگوں کو دیر ہو گئی اور ایک ذرا بھی ان کے ہاتھ نہ لگا وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے احمق رہ گئے”۔

محنت کی سرگرمی میں لوگوں نے اوزاروں کی تخلیق کی ،تجربہ جمع کیا اور علم کو نشونما دی ،اوزاروں اور ہتھیاروں کو پتھر کے بجائے دھاتوں سے بنایا جانے لگا تب انسان کو بہت سی بیماریوں کا علاج کرنا بھی آگیا تھا اسے جڑی بوٹیوں کے خواص کا علم ہو چکا تھا ۔وہ پرندوں ،جانوروں ،کیڑوں اور نباتات کو دیکھ کر موسم کی پیشن گوئیاں کر سکتا تھا وہ آگ کا مالک بن چکا تھا اور پودوں کی کاشت سیکھ چکا تھا اسی مطابقت سے دنیا کے بارے میں اس کا تصور بھی تبدیل ہوا۔ْ

چار ہزار سال قبل از مسیح کے دور میں (دور آہن،اس سے پہلے کا دور کانسی کا تھا ) یونان میں لوہے اور تانبے کی کچھ دھاتوں کی کان کنی ہونے لگی اور دھات کو پگھلا نے کے مختلف طریقے دریافت کئے گئے ،فصلیں اچھی ہوئیں اور دستکایوں کو عروج حاصل ہوااور ضروریات کے پیش نظر انسان نے باہمی طور پر اشیاء کا تبادلہ شروع کیا جو کہ تجارت کی پہلی شکل تھی ۔سکوں کی ڈھلائی اور سونے کے بدلے میں اشیاء کے تبادلے نے انسان کو دولت جمع کرنی سکھا دی تھی ۔پیداوار کی تیز تر ترقی اور سماجی دولت میں اضافے سے سماج کے کچھ لوگوں کیلئے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ کھیتوں میں،کارخانوں میں ،کانوں وغیرہ میں محنت نہ کریں اس کیلئے ملازمین رکھیں جن کے پاس سرمایہ نہیں ہے اور یوں سماج طبقوں میں بٹتا چلا گیا عوام میں سوداگروں کے اثرو نفوذ اور ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اثر یہ ہوا کہ بادشاہوں کو نکال دیا گیا اور یونانی شہری ریاستوں (پولسوں) میں جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں ۔لیکن ان جمہوری حکومتوں میں بھی غلاموں کو حقوق نہیں ملے تھے عوام کا جو استحصال پہلے بادشاہ کرتے تھے اب وہی نظام تاجروں کی بنائی ہوئی پارلیمینٹ ،عدلیہ اور فوج کرتی تھی ۔اراکین پارلیمنٹ کے کا ہر جرم معاف تھا عدلیہ انہیں پورا تحفظ فراہم کرتی تھی ۔بادشاہی نظام سے جمہوری نظام آ جانے کے باوجود بھی اینتھز ،اسپارٹا ،ایونیا و دیگر ریاستوں کے خاک نشینوں کی زندگی نہیں بدلی تھی صرف استحصالیوں کے چہرے بدل گئے تھے۔آج میں پاکستان میں موجود جمہوریت کا ڈھائی ہزار سال قبل کی یونانی جمہوریت سے موازانہ کرتا ہوں تو مجھے دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ تاجروں کی جگہ سیاسی تاجروں نے لے لی ہے جو سبز باغ اور وعدے فروخت کرتے ہیں بنیادی طور پر عوام کا استحصال کرنے کا حربہ وہی ہزاروں سال پرانا ہے ۔آج جب اپنے دور اقتدار میں اپنی ذات کی سکیورٹی کیلئے کروڑوں روپے مالیت کے حساس آلات منگوا کر وزیر اعظم ہائوس میں نصب کرنیوالے ،لاکھوں روپے مالیت کے مالیت کے درآمدی کتوں کو باڈی گارڈ کا اعزاز عطا کرنیوالے ،ایکڑوں پر پھیلے شاندار محلوں میں بیٹھ کر غریب کی بات کرنیوالے نوازشریف، لندن میں سرے محل خریدنے والے ،گھوڑوں کو سیب کے مربے کھلانے والے ،ہر سرکاری سودے میں 10فیصد کمیشن لے کر مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہونیوالے این آر او یافتہ آصف زرداری ،لال مسجد میں وحیشیانہ فوجی آپریشن کروا کر ہزاروں مسلمانوں کی جانیں لینے والے ،اپنے ہی ملک کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر فتح کرنیوالے ،صلیبی جنگ میں ایک مسلمان ملک کو جھونکنے والے ،فرعون، شداد و نمرود وقت جنرل(ر)پرویز مشرف کے احستاب کی بات کرتے ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے وہ احتساب آتا ہے جو مشرف نے نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس سے نکال کر سعودی عرب کے شاہی محل میں پہنچا کر ،اور آصف زرداری کیلئے این آر او جاری کروا کر کیا تھا بالکل ویسا ہی احتساب اب پرویز مشرف کا ہو گا ،اور جہاں تک بات ہے سپریم کورٹ کی جانب سے مشرف کو طلب کرنے کے نوٹس جاری کرنے کی تو یاد رہے کہ افتخار محمد چوہدری پہلے بھی پی سی او اور ایل ایف او (لیگل فریم آرڈر) کے تحت حلف اٹھا چکے ہیں ۔12اکتوبر 1999ء کو مشرفکے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جب چیف جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تھا تو جسٹس افتخار چوہدری نے اسی پی سی او کے تحت حلف لیا تھا جسٹس افتخار اس وقت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر سپریم کورٹ میں آئے تھے ۔آج پرویز مشرف کی سپریم کورٹ میں طلبی افتخار چوہدری اور پرویز مشرف کی ذاتی جنگ ہے جو کہ افتخار چوہدری احتساب اور قانون کی حکمرانی کے نام پر لڑ رہے ہیں اور اس سارے پس منظر میں عوام کے تمام مسائل لوڈ شیڈنگ، مہنگائی،بیروزگائی و دیگر بڑے مسائل کو پس پشت ڈالا جارہا ہے

مہنگائی، بے روزگاری اور مشرف کا احتساب

‘ ڈاکٹر منیب احمد ساحل

سوچ جب عمل سے دور ہو جائے تو یہ بیماری بن جاتی ہے ،یہ بیماری اگر کسی قوم کو لگ جائے تو اس قوم میں تعمیراتی صلاحتیں ختم ہو جاتی ہیں اور پوری قوم مستقبل کی پیش بندی کرنے کے بجائے آپس میں دست و گریباں ہوتی ہے اور معاشرے میں افراتفری اور درہم برہم صورتحال موجود رہتی ہے ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”سوچ”دراصل ہے کیا؟ انسان جب کوئی چیز دیکھتا ہے تو اسے دیکھ کر اس کے اندر کچھ خیالات اور احساسات جنم لیتے ہیں اور خیالات کی پختگی کو ہی سوچ کہا جاتا ہے ،آئیے اس سوال کو دوسرے انداز میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”اگر کسی چٹان پر ہمیشہ ہوا کے جھکڑ وار کرتے رہیں اور اس پر ژالہ باری ہوتی رہے تو رفتہ رفتہ وہ ٹوٹ جاتی ہے اس کی شکل بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنی جگہ قائم رہتی ہے ،جبکہ کوئی جاندار کیڑا بھی آرام دہ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں خراب موسم میں وقت گزارا جاسکے ،نباتات بھی اپنے طور پر اپنی حفاظت کرتے ہیں ،مگر پھر بھی انسان کے سوا ہر جاندار ہستی میں ارد گرد میں ہونیوالی تبدیلی پر صیح ردعمل کرنے کی صلاحیت محدود ہے ،خشکی پر رہنے والا کوئی بھی جاندار جب زیر آب آتا ہے وہ مر جاتا ہے ،لیکن انسان غوطہ خوری کے ایسے لباس استعمال کر سکتا ہے جس کے اندر آکسیجن کی ٹنکیاں لگی ہوئی ہوں اور وہ پانی میں بھی رہ سکتا ہے، گرم علاقوں میں رہنے والے جانور قطب شمالی میں تھوڑی مدت بھی نہیں رہ سکتے ،لیکن انسان جو کبھی قطب شمالی نہ گیا ہو ایسے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے بڑی اچھی طرح تیار ہو سکتا ہے ،جبکہ انسان کو جسمانی ساخت کے اعتبار سے اچھی طرح محفوظ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ نہ وہ گرم بالوں والی کھال رکھتا ہے ،نہ تیز ناخن،نہ نوکیلے دانت ،انسان کو یہ برتری اس لئے حاصل ہے کہ وہ صورتحال کا تجزیہ کر سکتا ہے اپنے اردگرد ہونیوالے واقعات پر اپنے خیالات اور احساسات کی بدولت غور کرتا ہے اور جب اس کا خیال پختہ ہوجائے تو اسے سوچ کہا جاتا ہے ،قدیم اور جدید دور کے انسان کے قیالات اور احساسات میں زمین آسمان کا فرق ہے ،قدیم انسان نے ٹھوس تمثیلوں کو فطرت کی علامت سمجھ کر فطرت کا ایک نظام بنانا شروع کر دیا تھا ،قدیم یونانی نے دیوتائوں کا ایک نظام مرتب کیا ان کا ہر ایک دیوتا کسی نہ کسی انسانی سرگرمی کی تجسیم ہے ،پان مویشیوں کے گلوں پر نگاہ رکھتا تھا ،ہرمیس تجارت کی سرپرستی کرتا تھا دیمیتر زرخیزی اور زراعت کی دیوی تھی ،ہیرا شادی بیاہ کی سرپرست تھی ،وغیرہ وغیرہ۔ یونان میں جمہوریت کے قیام کے بعد ہر چھوٹی ریاست کے اپنے قوانین تھے جو بری حد تک دیوتائوں کے اقتدار و دستور پر تکیہ کرتے تھے ،قدیم یونانی فلسفیوں نے ان قوانین کو دیافت کرنے کی کوشش کی تھی ،چیزوں کے درمیان عام رشتے کا اظہار قیاسات کی شکل میں کرتے ہوئے ہیرا قلیطس نے یہ خیال ظاہرہ کیا کہ دنیا واحد ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں ایک شے ”آگ” واحد ہے جو بڑے پیمانے پر جلتی ہے اور بڑے پیمانے کے مطابق بجھتی ہے ،تھیلیز نے دنیا کی بنیاد پانی کو سمجھا ۔اناکسی مینڈر نے ہوا کو اور اسی طرح کائنات کے بارے میں سوچتے ہوئے دیموقریطس نے دنیا کی واحد ابتداء کے طور پر چھوٹے چھوٹے متحرک ذرات کو اہمیت دی جنہیں جدید سائنس ایٹم کہتی ہے ، سقران نے یونانی قوانین کو دیوتائوں کی مرضی کا حوالہ دینے کے بجائے عقلی دلیلوں پر پرکھنے کی کوشش کی ،سقراط نے اس بات پر زور دیا کہ ”ہم صرف اپنی شہری ریاستوں کے اراکین نہیں بلکہ سارے انسانی معاشرے کے اراکین ہیں ،اور صرف اینتھز یا اسپارٹا کے نہیں بلکہ کائنات کے شہری ہیں”۔ سقراط نے عقل کو رسم و رواج سے بلند تر، ”اپنے دیوتائوں” کے سامنے خوف سے بلند تر قرار دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سقراط پر تنقید ہوئی اور اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ،پرانے کی جگہ نیا آجانا فطرت،سماج اور تفکر کے ارتقاء کی اہم خصوصیت ہے ،دنیا میں تبدیلی ایک معین سمت ہوتی ہے ،ہم ننگ دھڑنگ وحشی نہیں کہ جب کا کوئی ماضی نہیں جو ایسے جنگل میں آن پہنچے ہیں جہاں پہلے سے کوئی انسان نہیں آیا تاکہ ”انتخاب” کر سکیں ۔تاریخ وجود رکھتی ہے اور ہم اس کے بتائے ہوئے راستے کے ایک مقام پر کھڑے ہیں ،یہ وہ اسپرنگ بورڈ ہے جو ہمیں آگے جانے میں مدد دیتا ہے مگر آج ہاری سوچ عمل سے دور ہے اس لئے ہم ایک جگہ کھڑے ہیں ، ملک بھر کی فضائوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کے 3نومبر کے اقدامات کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دینے کی،اور پی سی او ججز کو غیر آئینی قرار دینے کی سدا اب تک گونج رہی ہے ،اہل دانش کا کہنا ہہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا گیا ہے ،لیکن مجھے یہ لگ رہا ہے کہ نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کے بجائے اسے دوبارہ زندہ کر دیا گیا ہے کیونکہ پرویز مشرف کے جاری کردہ تمام آرڈیننس بمشمول این آر او جو کہ اپنی مدت پوری کر چکے تھے انہیں دوبارہ سے نیا کر دیا گیا اور اس کے لئے پارلیمنٹ کو 3ماہ کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ قانون سازی کر کے مشرفی آرڈیننسز کو آئین کا حصہ بنا سکتی ہے ۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر جس نے ملک کا آئین پامال کیا ،ملکی معشیت اور اداروں کو نقصان پہنچایا ،اپنے ہی ملک پر فوج کشی کی ،اسے باقاعدہ گارڈ آف آرنر دے کر ملک سے رخصت کرنے کی بات عوام کو بیوقوف بنانا اور بنیادی مسائل کی طرف سے ان کا دھیان بٹانا ہے ،آج بھی مشرف کے رخصت ہونے کے ڈیڑھ سال بعد بھی پالیسیاں وہی عوام کش ہیں ،سپریم کورٹ میں آج بھی پی سی او ججز بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے 2000ء کے مشرفی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا لیکن چونکہ اس وقت خود حلف اٹھایا تھا اس لئے 2000ء کے مشرفی اقدامات ملک و قوم کی فلاح کیلئے تھے اور 3نومبر 2007کے کو چونکہ جسٹس افتخار اینڈ کمپنی نے خود حلف نہیں اٹھایا تھا اس لئے اس پی سی او پر انہیں اعتراز ہے ۔اور وہ اسے غیر قانونی قرار دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود قابل ذکر امر یہ ہے کہ پی سی او کے بعد جاری ہونیوالے تمام آرڈیننسز کو جسٹس افتخار نے دوبارہ زندہ کر کے مشرف کے 3نومبر 2007ء کے اقدامات کی توثیق کر دی ہے۔آج ملک میں مہنگائی میں مسلسل اور بے تحاشا اضافے نے عام آدمی کو نان شبینہ کا محتاج کر دیا ہے ،لوڈ شیڈنگ کے سبب صنعتیں بند ہیں ،نظام تعلیم عملا تباہ ہو چکا ہے ،قوم میں لسانیت اور فرقہ واریت کا زہر پھیل چکا ہے مگر آج بھی کسی کو عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینے کیلئے فرصت نہیں ہے حکمران اور سیاستدان مشرف کا احتساب اور جج تماشے سے عوام کو بیوقوف بنا کر داد وصول کر رہے ہیں اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھاڑے کے ٹٹو کا کردار ادا کر کے ڈالر سمیٹ رہے ہیں ،اج ہم پاکستان کو خوشحال بنانے کا سوچ رہے ہیں اور نعرے بھی لگا رہے ہیں ،مگر چونکہ ہماری سوچ عمل سے دور ہو چکی ہے اس لئے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے صرف سوچ سکتے ہیں ،حالات کو دیکھنا، اس پر غور کرنا لیکن اسے بدلنے کی کوشش نہ کرنا بیمار قوموں کی نشانی ہے۔

 

 

 

 

سوفسطائیت اور پاکستانی مسائل
ڈاکٹر منیب احمد ساحل(کالم نگار)
لفظ ''سوفسطائی'' شروع میں ''دانشمند، استاد'' کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ سو فسطائی ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو معمولی سے مشاہرے کے عوض بحث کے فن کی تعلیم دیتے تھے اور دانش وبلاغت کے استاد ہوتے تھے۔ اولین باتنخواہ معلموں کی حیثیت سے سوفسطائیوں کا فریضہ ہوتا تھا ''تفکر، تکلم اور تعمل''سکھانا۔ لیکن سوفسطائیوں کے لئے خاص چیز ہوتی تھی کسی بھی طریقے سے، طرح طرح کی چالوں بلکہ فریب سے بھی اپنے مخاطب کو بات میں اور بحث میں نیچا دکھا دینا۔ اس کے لئے وہ سارے ذرائع کو اچھا سمجھتے تھے۔ سوفسطائیوں کے مخالفین ان کی چالا کیوں اور فریب سازیوں کو تفصیل کے ساتھ گناتے ہیں۔ سوفسطائی اپنی تقریر کو بہت طول دے سکتا ہے اسی لئے کہ بہت سی باتوں کی طرف دھیان دینا مشکل ہوتا ہے، بہت تیزی سے بات کر سکتا ہے یا بحث کو جاری رکھنے کے لئے وقت کی کمی کا عذر پیش کرتا ہے۔ سوفسطائی اپنے مخالف کو غصہ دلا سکتا ہے اس لئے کہ غصے میں آدمی دلیلوں کی منطقی درستی کی طرف کم ہی توجہ کرتا ہے.... سوفسطائی کی بحث کا ایک ہی مقررہ مقصد ہوتا ہے__اسے جیتنا ہے۔ اور وہ ہر قیمت پر اپنے  کوصحیح ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے سوفسطائی اکثر حقیقی رشتوں اور تعلق کو جھوٹی چیزوں سے بدل دیتا ہے، شعبدہ گربن جاتا ہے اور ''سوفسطائیت'' کی مدد سے کسی بھی رائے کی مدافعت یاتردید کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔ ایک قدیم یونانی فلسفی میلیتس کے یو بلیدیس نے سوفسطائیت کی بہت سی مثالیں لکھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔جو تم نے کھویا نہیں وہ تمھارے پاس ہے۔ تم نے سینگ کھوئے نہیں، چنانچہ تم سینگوں والے ہو۔یاآدمی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، دونوں صورتوں میں وہ تلاش نہیں کر سکتا__یا تو وہ جانتا ہے اور اسے تلاش کرنے کی کوئی ضرورت ہیں۔ اور جو نہیں جانتا اسے تلاش کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ وہ جانتا ہی نہیں کہ تلاش کیا کرنا ہے۔سوفسطائیوں کے ہاں زندگی کے بارے میں ایک خاص رویہ ملتا ہے اور وہ ہے فریب کی پرستش۔ اسی لئے جو شخص انہیں دھوکا دے دے اسے وہ دھوکانہ دینے والے سے زیادہ دیانتدار سمجھتے ہیں۔ انسان کے برتائو کے بارے میں رائے قائم کرنے کی بنیاد کے طور پر واحد کسوٹی کی جگہ افادیت کا اصول لے لیتا ہے۔ چنانچہ ہر برتائو کا محرک تین مقصود کو ہونا چاہئے__تشفی، فائدہ اور عزت۔ اور اسی سے سوفسطائیوں کی انصاف کی سمجھ بھی معین ہوئی۔ انصاف اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ طاقتور کے لئے فائدہ مند ہو۔ اسی لئے سو فسطائیت حقیقت کو مسخ کرتی ہے،اشرافیہ کے نمائندے اور بورژوا سوفطائیت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے اور سیاست میں اس کا اہم کردار تھا میکاولی کی مشہور زمانہ تصنیف ''داپرنس'' کے بعد سیاست نئے دور میں داخل ہوئی تو سوفسطائیت کے معنی تبدیل ہو گئے ،میکاولی نے سیاستدانوں کو عوام کو الجھانے کے نئے گرسکھائے اور اس کے سکھائے ہوئے راستے پر آج دنیا بھر کے سیاست دان خاص طور پر پاکستانی سیاستدان چل رہے ہیںاس کی مثال ہمیں حالات حاضرہ پر ایک نظر ڈال کر اچھی طرح سے مل سکتی ہے۔آج بھی پاکستانی سیاستدان عوام کو الجھا رہے ہیں اور عوامی مسائل کی جانب سے چشم پوشی کر رہے ہیں جس کے باعث پورا ملک دہشتگردی اوربم دھماکوں سے گونج رہا ہے۔اس وقت ملکی فضائوں میں ایک طرف تو جنوبی وزیرستان میں ہونیوالے فوجی آپریشن کے خلاف اور اس کی حمایت میں صدائیں گونج رہی ہیں تو دوسری جانب کیری لوگر بل اور این آر او کے پارلیمنٹ میں پیش ہونے پر اہل دانش نے تبصروں اور تجزیوں کا جمعہ بازار لگارکھا ہے۔ جبکہ حکومت اور سیاسی رہنمائوں کے رہنما ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی کر رہے ہیں ۔لیکن عوامی مسائل کے تباہ کن طوفان اور سیاسی ،سماجی اور اقتصادی بحرانوں کے بڑھتے ہوئے طوفان ہیں جو کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور بڑھتے چلے جارہے ہیں ،آج بھی ملک میں عوام کے مسائل پر توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہے ،کیری لوگر بل ،دہشتگردی اور فوجی آپریشن تو ووٹ لینے والوں کا مسئلہ ہے ووٹ دینے والوں کا نہیں اس لئے آج دہشتگردی کیخلاف جنگ اور این آر او کے پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے تک کی بحث میں عوام کیلئے سوائے انتظار کے کچھ نہیں ۔اور اسی سبب آج غربت ،بھوک اور ننگ آج وطن عزیز کی سڑکوں ،چوراہوں اور بازاروں میں غیر انسانی ننگا ناچ ناچ رہی ہے ،دن بدن کرپشن کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے چالاک و دولت مند گروہ اپنے لامحدود وسائل سے اشیائے خوردونوش کے بحران در بحران پیدا کر کے عوام کا خون چوس رہے ہیں اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،پوری انتظامی و اقتصادی مشینری مراعات یافتہ بالادست طبقات کے مفادات کی بجا آوری میں شب و روز مصروف عمل ہے ،پاکستان کے استحصالی ،طاغوتی حکمران 22ارب روپے کی بلٹ پروف گاڑیوں کے لشکر میں گھومتے ہیں اور سینکڑوں محافظوں اور کمانڈروں کے حفاظتی لشکر میں گھوم رہے ہیں جبکہ عوام بسوں اور ویگنوں میں لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہے ،ملک کے کروڑوں عوام بے گھر اور بے زمین ہیں ،کروڑوں بچے اسکولوں کی شکل تک دیکھنے کو ترستے ہیں جبکہ سرداروں،خانوں،چوہدریوں،لغاریوں،ملکوں، میائوں ،زرداریوں ،مخدوموں و دیگر سوفسطائیوں کے لاڈلے بیرون ملک مہنگی ترین اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں ،ملک کے 7کروڑ عوام خط غربت کے نیچے زندگی گھسیٹ رہے ہیں جبکہ عوامی حاکمیت اور جمہوریت کے چیمپئن وزیراعظم کے کچن پر سالانہ 47کروڑ روپے خرچ کئے جارہے ہیں ،ان سوفسطائیوں نے بد ترین مہنگائی ،کساد بازاری ،بیروزگاری، اور بنیادی حقوق کو پامالک کر کے قوم کے جذبہ حب الوطنی و اسلام پسندی و قومی اخوت کی سوچ و فکر پرستی کو ان کے دلوں سے نکال کر ان کے پیٹوں تک پہنچا دیا ہے ،خودی، خود داری، وطن پرستی ،ضمیر اور مزاحمت کو ضرورتوں، کچن اور پیٹ کی قبر میں دفن کر کے انہیں بھیڑ بکریاں بنا کر قوم سے عوامی ریوڑ میں تبدیل کر دیا ہے اور اسی سبب ہم اس مقام پر آن پہنچے ہیں جہاں قوم میں مفاہمت اور باہمی تعاون کے رشتے کمزور ہو چکے ہیں اور سیاسی نظام کے درہم برہم ہوجانے سے پاکستان کی اکائیاں بکھرنے لگیں ہیں ،جہاں تک کیری لوگر بل کے ذریعے ملک کو فروخت کرنے کا تعلق ہے تو میرے مطابق جس دن قائد ملت لیاقت علی خان امریکہ سے امداد لے کر آئے تھے اسی دن پاکستان کو گروی رکھ دیا گیا تھا اگر قائد ملت لیاقت علی خان امریکہ کے بجائے روس چلے جاتے تو کیا آج امریکہ افغانستان میں موجود ہوتا؟اصل مسئلہ امریکی امداد یا این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا نہیں اصل مسئلہ نظام کو بدلنے کا ہے جب تک پاکستان میں جمہوری ابلیسی نظام قائم رہے گا دہشتگردی بھی رہے گی اور عوام نان شبینہ سے ترستے رہیں گے۔



This website was built using N.nu - try it yourself for free.(info & kontakt)